شادی شدہ زندگی کا آغاز دو انسانوں اور دو خاندانوں کے ایک دوسرے پر اعتماد سے ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اب ہمارے معاشرے میں بھی غیر ازدواجی تعلقات کی وجہ سے اس اعتماد کے اپنے انجام کو پہنچنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور ایسے واقعات سوشل میڈیا پر بہتات میں مل رہے ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا رہا ہے کہ شادی کے بعد مرد کی دلچسپی کہیں اور ہو جاتی ہے یا پھر انہوں نے شادی سے پہلے کی پسندیدگی یا تعلق کو ختم کیے بنا نئی زندگی کا آغاز کردیا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ خواتین بھی کسی شعبے میں کم نہیں تو غلط نہ ہو گا۔جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ آپ ایک شخص کے ساتھ ازدواجی بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ اس شخص کے ساتھ وفادار رہنے کا معاہدہ کر چکے ہیں۔ اگر اس معاہدے کے خلاف ورزی ہو رہی ہے تو یہ معاہدہ جاری نہیں رہ سکتا۔
وجوہات
بے جوڑ رشتے
دیکھا جائے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ ”شادی کروا دو“ کوئی لڑکا اگر انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہا ہے تو کہا جاتا ہے ”شادی کروا دو، ذمہ دار ہو جائے گا“ کسی کو اگر کوئی نفسیاتی عارضہ لاحق ہے تو پہلے تو کہا جائے گا کہ اس پر جن آتے ہیں۔ پھر حل یہ نکالا جاتا ہے کہ ”شادی کروا دو، ٹھیک ہو جائے گا“ کوئی نشے کی لت میں مبتلا ہے تو اس کا حل بھی شادی ہی تجویز کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر بیٹی یا بیٹا کسی کو پسند کرنے لگیں تو بھی کہا جاتا ہے کہ اپنی مرضی سے رشتہ دیکھ کر ”فوراً شادی کروا دو“۔ شادی ہو جائے گی تو اپنی پسندیدگی کو خود ہی بھول جائیں گے اور اگر یہ مسائل شادی کے بعد بھی حل نہ ہوں تو پھر اگلا حل یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ ایک آدھ بچہ ہو گیا تو خود ہی سیٹ ہو جائیں گے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ خاتون بچوں میں الجھ جاتی ہے اور مرد باہر کی دنیا میں اپنی دلچسپی تلاش کر لیتا ہے اور جب خاتون کا ردعمل سامنے آتا ہے تو پھر صرف لڑائی جھگڑے سامنے آتے ہیں۔
مواصلات کے آسان ذرائع
مواصلات کے آسان ذرائع نے روابط آسان کر دیے ہیں۔ موبائل کے ایک کلک پرسینکڑوں لوگوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے اور پھر اگلے مراحل طے کرنا بھی ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ آج کے دور میں ہم سب سوشل میڈیا کے زیر اثر ہیں اور اپنی زندگی کا موازنہ دوسرے لوگوں سے کرتے ہیں جس کی وجہ سے لڑائیاں بھی شروع ہوجاتی ہیں، لڑکیاں اپنے اس احساس کمتری اور ڈسٹریس یا غصے کو کم کرنے کے لیے بسا اوقات غلط راستے اپنا لیتی ہیں اور مرد اپنے راستے ڈھونڈ لیتے ہیں ۔
مظلومیت کا دکھاوا
ایسے معاملات میں لوگ ڈھٹائی سے اپنے آپ کو نہ صرف حق بجانب سمجھتے ہیں بلکہ اکثر اوقات تو مظلوم بھی خیال کرتے ہیں۔ اکثر ایسا کرنے والوں کے پاس ایک ہی جواز ہوتا ہے کہ ہم اپنی شادی سے چونکہ مطمئن نہیں ہیں لہٰذا ایسا کرنا ہمارا حق بنتا ہے۔
سدباب
بنیادی طورپر تین چیزیں آپ کی زندگی کو لے کر چلتی ہیں جس میں ایک دوسرے پر اعتماد، وفاداری اور ایک دوسرے کا احساس شامل ہیں۔
زندگی میں اونچ نیچ آتی ہے اور اگر آپ کے رشتے سے وفاداری چلی گئی تو اس رشتے کی بنیاد ہی ختم ہوجاتی ہے، کوشش کریں ایک دوسرے کا سہارا بنیں، ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ ان مسائل کو ختم کیا جا سکے ،نہ یہ کہ مزید مسائل پیدا کیے جائیں۔
جو بھی ایسے مسائل سے گزر رہا ہے اسے چاہیے کہ شارٹ کٹ حل تلاش نہ کرے ، ایسے تعلقات سے شاید آپ اپنے آپ کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوجائیں لیکن وہ آپ کی زندگی کو متاثر کرنا شروع کردیتے ہیں اور آپ خود بھی شرمندگی محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں، آپ کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ بےجوڑ شادیوں سے حتیٰ المقدور بچا جائے اور شادی اس وقت کی جائے جب دونوں فریقین باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے ساتھ وفادار رہنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہوں۔خود ترسی کے حساسات سے دور رہا جائے اور سوشل میڈیا کو حقیقی زندگی سے نہ جوڑیں ورنہ ہمارا معاشرہ پستی کی جس دلدل میں اترتا جا رہا ہے، وہاں سے واپسی کی ہر راہ مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گی۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔