باپ اور بیٹی کا رشتہ اللہ رب العزت نے بہت مقدس بنایا ہے اور اس رشتے کو بہت خوب صورت احساس سے نوازا ہے۔ بیٹیاں باپ کے آنگن کی رونق ہوتی ہیں۔ عام طور پر کہا یہ جاتا ہے کہ مائیں بیٹوں سے زیادہ پیار کرتی ہیں جب کہ باپ بیٹیوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ باپ اپنی اولاد کے لیے گھنے درخت کی مانند ہوتا ہے جو اپنی بیٹیوں کو زمانے کے سردوگرم سے بچا کر رکھتا ہے جس کے سائے میں بیٹیاں پروان چڑھتی ہیں اور لاڈ پیار میں رہتی ہیں اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گھل مل کے زندگی سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔
ماں کی نسبت باپ کا بیٹیوں کے ساتھ حوصلہ افزا رویہ ان کی صلاحتیوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک باپ کا بیٹی کے ساتھ مشفقانہ رویہ اس میں خود اعتمادی پیدا کرتا ہے جس کی بنیاد پر بیٹیاں مضبوط بنتی ہیں اور کامیاب زندگی گزارنے کے قابل بنتی ہیں۔
بیٹی کے پیدا ہونے پر سب سے پہلا تحفہ جو ایک باپ اپنی بیٹی کو دے سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی پیدائش پر افسوس کرنے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کیا جائے اور پہلی ہو یا پانچویں اسے اللہ کا حکم مانا جائے ،جسے پورے دل کے ساتھ قبول کیا جائے۔پھر ایک باپ اپنی بیٹی کے لیے ایک اچھا سا نام چنے جو اس کی پوری زندگی اس کے ساتھ رہے گا اور اس کی پہچان بنے گا۔بیٹیوں کو خود اعتمادی دی جائے اور اپنے عمل سے یہ ثابت کیا جائے کہ وہ آپ کے لیے اہمیت رکھتیں ہیں۔
ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے اور کوشش کی جائے کہ ایسی تعلیم ہو جو ان کی آنے والی زندگی میں ان کی مددگار ثابت ہو اور وہ با اختیار بنیں۔پھر جب وہ ایک پروفیشن اختیار کریں تو انھیں اس کی اہمیت کا بھی معلوم ہونا چاہیے اور کچھ لڑکیاں جو صرف اس وجہ سے اپنا پرو فیشن چھوڑ دیتی ہیں کہ ان کے سسرال والوں کو پسند نہیں،اس سوچ کو غلط قرار دیا جائے اور اس انسان سے کبھی بندھن نہ باندھا جائے جو بیٹی کو ایک پرا پرٹی کی طرح سمجھے۔
بیٹی کی جب شادی ہو تو بلا وجہ کا ٹرک بھر کر سامان دینے کے بجائے یہ دیکھیں کہ پیسہ کہاں خرچ کیا جائے ۔یہ دیکھا جائے کہ ایسی جگہ پیسے خرچ ہوں جہاں سے اس کا مستقبل محفوظ ہو جیسے کوئی جائیداد خرید کر دے دی جائے یا کاروبار میں لگا دیا جائے۔اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو گولڈ بھی دیا جا سکتا ہے جس کی وقت کے ساتھ قیمت گھٹنے کے بجائے بڑھتی ہے اور اس طرح یہ انویسمنٹ بھی ہو جاتی ہے۔
لڑکیوں میں لیڈر شپ پیدا کی جائے تاکہ وہ زندگی میں بھر پور کرادر ادا کر سکیں۔انھیں خود مختار بنایا جائے اور ان میں ایسی صلاحیتیں پیدا کی جائیں جو ان کو دوسروں کی محتاجی سے بچائیں اور سب سے بڑھ کر یہ بات اہم ہے کہ ان کو وراثت میں حصہ دیں اور اگر وراثت میں جائیداد نہیں تو انھیں اس قابل بنا دیں کہ وہ خود اپنا گھر بنا سکیں۔اور وہ ساری عمر یہ ہی نہ کہتی رہ جائیں کہ “عورت کا تو کوئی گھر ہی نہیں ہوتا”۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔