بچوں کے لیے ماں باپ دونوں کی ہی بہت اہمیت ہوتی ہے مگر بعض اوقات کسی کی موت ہو جاتی ہے یا حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے اور ساری ذمہ داری ایک پر آجاتی ہے۔اس ذمہ داری کو ہم سنگل پیرنٹنگ کا نام دیتے ہیں۔سنگل پیرنٹنگ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہمارے ہاں کم ہی بات کی جاتی ہے مگر اسے زیرِ بحث لانا بہت ضروری ہے تاکہ ان سب کی راہنمائی ہو سکے جو ان حالات کا سامنا کرتے ہیں اور جیسا کہ ہمارے ہاں سنگل پیرنٹ ہونا کوئی اتنی اچھی بات بھی نہیں سمجھی جاتی ہے خاص طور پر جب طلاق ہو چکی ہو ۔بچے کی دیکھ بھال، اس کی پرورش، خرچہ، تعلیم کے علاوہ دیگر ذمہ داریاں اکیلی ماں یا پھر بچے کے باپ کو سنبھالنی ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ ایسے بچے جن کے والد بچپن میں انتقال کر جائیں، عام بچوں کی نسبت ان کی طبیعت میں فرق نمایاں ہوتا ہے، کیونکہ ان کو اپنے پاؤں پر خود ہی کھڑے اور زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہر قسم کی کامیابی اپنی محنت کے بل پر حاصل کرنی ہوتی ہے
سنگل پیرنٹ آدمی ہو یا عورت بچوں کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار ہوتے ہیں لیکن عورت کو معاشرے میں زیادہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتاہے اگر وہ معاشی طور پر مستحکم نہ ہو،ان کو دوسروں کی محتاجی برداشت کرنی پڑتی ہے ۔اب جیسا کہ معاشرتی دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے اور مشکل وقت میں تو تقریبا سب ہی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور پھر کبھی خاندان اور لوگوں کی طرف سے دباؤ ، جو سب برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا ہے خاص طور پر اس عورت کے لئے جو ان حالات سے گزر رہی ہوتی ہے اور اوپر سے بچوں کی پرورش کی ذمہ داری الگ ۔ ایسے حالات میں جب اپنے بھی ساتھ چھوڑ جائیں تو اکیلا پن مزید بڑھ جاتا ہے اور اگر کوئی دکھ درد بانٹنے والا نہ ہو تو جذباتی دبائو اور ڈپریشن بڑھ جاتا ہے جو حالات کو مزید سنگین بنا دیتے ہیں۔جب ایک عورت اکیلی ہو جاتی ہے تو یہ معاشرہ اس پر مزید دباؤ ڈالتا ہے۔ ان حالات میں خود کو سنبھالنا، بچوں کو دیکھنا اور حالات کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے یقینا، مگر یہ حقیقت ہے اور اسے قبول کرنا ہی دانش مندی ہے تب ہی آپ حالات سے نمٹنےکیلئے خود کو تیارکر پائیں گی ۔ حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ حالات کی سنگینی کو پہلے قبول کیا جائے تب ہی ہم حل کی طرف آ سکتے ہیں ۔بچے کی اکیلے پرورش کرنے والے والدین کو مندرجہ ذیل تجاویز پر ضرور عمل کرنا چاہیے تاکہ بچے کی پرورش خوشگوار ماحول میں ہوسکے۔
تجاویز
ماہرین کا خیال ہے کہ بچے کے ساتھ کھلا رابطہ برقرار رکھیں، بات چیت کرنے کے دوران بچے کی بات کو تحمل سے سنیں اور اپنے چہرے کے تاثرات کا خیال رکھیں۔
بچوں کو یہ احساس دلائیں کہ آپ ہر اچھے اور بُرے لمحات میں ان کے ساتھ ہیں، ان سے اپنے پیار کا اظہار کریں اور ان پر بھروسہ کریں۔
اپنے بچے کے ساتھ وقت گزاریں ان سرگرمیوں میں حصہ لیں جس سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں، اس سے آپ کا اپنے بچے کے ساتھ رشتہ مزید مضبوط ہوگا۔
بچوں سے اظہار محبت اور ان کی تعریف کرنے سےبچے میں تحفظ اور خود اعتمادی کا احساس پیدا ہوگا۔ اس سے انہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد محسوس کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے
بچوں کی دیکھ بھال میں اگر کوئی مشکلات پیش آرہی ہیں تو اہل خانہ یا قریبی دوستوں سے مدد اور مشورہ لیں۔
ایسے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہیں جو سنگل پیرنٹ ہیں ، ان سے رابطے کرنے سے آپ ان کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ آپ تھراپی یا کونسلنگ پر بھی غور کر سکتے ہیں، یہ ان سنگل پیرنٹ کے لیے مددگار ہے جو تناؤ، اضطراب اور ڈپریشن کا سامنا کررہے ہیں
اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھیں۔باقاعدگی سے ورزش آپ کے مزاج کو بہتر بنا سکتی ہے اور تناؤ کو کم کر سکتی ہے۔آپ کسی چہل قدمی، یوگا یا کسی جم کو بھی جوائن کرسکتے ہیں۔
تمام لڑائی جھگڑوں کو کچھ وقت کے لیے بھلا کر ہفتے میں ایک یا دو بار بچے کو ماں یا باپ سے ملنے کا موقع فراہم کریں تاکہ وہ ان کی محبت اور شفقت سے محروم نہ رہے۔
بچوں کو اپنے دوست، عزیز واقارب کے ساتھ ملاقات کرنے کا موقع فراہم کریں اس سے ان کی شخصیت میں پختگی اور سماجی روابط میں اضافہ ہوگا۔
بچوں کے سامنے والدین کو ایک دوسرے پر الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے، اس سے والدین کا احترام کم ہوتا ہے اور بچے ذہنی الجھن، مایوسی یا ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔
خود کو خود ترسی سے نکالیں اور مان لیں کہ یہ ایک حقیقت ہے اور آپ کو اب اس کو اچھے طریقے سے فیس کرنا ہے۔ بہت سے بڑے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے مگر جینا سب سیکھ جاتے ہیں مگر ہمیں اچھے سے جینے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور بچوں کو بھی یہی سمجھائیں ۔ ہم لوگوں کو ایک ضروری قدم اٹھانے کی اشد ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنےبیٹوں کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کو بھی معاشی طور پر مضبوط کریں، جائیداد میں اس کا حصہ مقرر کیا ہے جو اسے دیا جانا چاہیے مگر ہمارے ہاں اسے اس کے اس جائز حق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے ،ایسے حالات میں وہ کیسے مضبوط ہو سکتی ہیں اور بڑے بڑے گھرانوں میں بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے ۔ اچھی تعلیم کے ذریعے ہو یا پراپرٹی اور کے ذریعے ۔ انہیں ہنر مند بنائیں تاکہ وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرسکیں ۔ معاشی طور پر مضبوط ہونا بہت ساری پریشانیوں اور تکلیفوں سے بچا لیتا ہے اور اسے در در بھٹکنے سے بچا لیتا ہے ۔صرف اچھے گھر میں شادی ہو جانا ہی کافی نہیں ہے اس کے ساتھ اس کا خود کسی قابل ہونا بھی ضروری ہے ۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔