وٹہ سٹہ کی شادی میں دو مختلف گھرانوں سے بھائی، بہن جوڑی کی شادی میں ادلا بدلی ہوتی ہے۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں اکثر شادیاں وٹہ سٹہ کی بنیاد پر انجام پاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہونے والی ستر سے اسی فیصد شادیاں وٹہ سٹہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ وٹے سٹے کی روایت محض دیہات تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ شہروں میں بسنے والے بعض روایتی گھرانے بھی ایسی شادیوں کو کامیاب ازدواجی زندگی کی گارنٹی سمجھتے ہیں ۔ وٹہ سٹہ کی شادیوں کے رواج کے باعث بہت سے معاشرتی، سماجی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اپنی ذات یا برادری میں ہی شادی کرنے کی غرض سے اکثر فیصلے خواتین کی مرضی کے خلاف ہوتے ہیں بلکہ وٹہ سٹہ کے تحت ہونے والی شادیاں اکثر انتہائی بے جوڑ ہوتی ہیں۔ وٹہ سٹہ کے تحت لڑکیوں کا رشتہ طے کرتے وقت نہ تو لڑکوں کی عمر دیکھی جاتی ہے، نہ تعلیم اور نہ ہی روزگار۔ بعض اوقات نہایت کم عمر لڑکیوں کی عمر رسیدہ مردوں سے شادیاں بھی طے پا جاتی ہیں۔دو سے زیادہ بھائی یاانتہائی قریبی رشتہ دار باہمی مشورے سے تین یا چار شادیاں بھی وٹہ سٹہ کی بنیاد پر جوڑ دیتے ہیں۔ اور ضروری نہیں کہ اس بندھن میں بندھنے والوں کی اس میں مرضی شامل ہو۔اس رسم کے تحت کی گئی شادیوں میں کئی مسائل سامنے آتے ہیں۔
خوف کا ماحول
وٹہ سٹہ خواتین کی ادلا بدلی سے کہیں زیادہ خاندانوں اور قبیلوں کے بیچ دھمکی اور خوف کا ماحول پھیلاتا ہے۔ ایک شوہر جو اس شادی میں اپنی بیوی کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے وہ لازماً توقع کر سکتا ہے کہ اس کا بردار نسبتی بھی اسی طرح اس کی بہن کے ساتھ سلوک کرے گا۔وٹہ سٹہ کو جہاں کچھ گھرانوں میں معمولی نوعیت کے گھریلو تشدد کی وجہ مانا گیا ہے، وہیں اس کے برعکس اسے کچھ جگہوں پر انتہائی سطح کے جوابی تشدد کا سبب بھی گردانا جاتاہے۔
جبری شادیاں
وٹے سٹے کی شادی میں تودل ہو نہ ہو،پسند ہو نہ ہو،عمروں میں فرق ہو تو ہو،بس سب کچھ دونوں خاندانوں کے مفادات پر قربان کرنا ہوتا ہے۔ وٹے سٹے کی شادیاں زیادہ تر جبری شادیاں ہوتی ہیں۔جن میں لڑکا اور لڑکی سے اس کی پسند معلوم کئے بغیر ہی شادی طے کر دی جاتی ہے۔دو خاندانوں کے درمیان دُلہن کے تبادلے کو جہیز اور جہیز کے تنازعات کے مطالبات اور نتائج کو محدود کرنے کے ایک غیر رسمی طریقہ کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے ۔
تشدد کاماحول
وٹہ سٹہ ایک قسم کا سماجی دباؤ اور جوابی کارروائی کی کھڑکی کھولتا ہے ۔جس میں اپنی بیوی سے بدسلوکی کرنے والا شخص اس بات سے خوفزدہ ہو سکتا ہے کہ اس کا برادرِ نسبتی خود اس کی بہن کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتا ہے۔ ان معنوں میں وٹہ سٹہ شوہروں کے تشدد سے بیویوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔جبکہ یہ فلسفہ الٹا پڑ جائے تو عورتوں پر تشدد کو بڑھاوا دینے کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ کیونکہ دونوں طرف سے پٹنا تو عورت کو ہی ہے۔
بے جوڑ شادیاں
وٹہ سٹہ میں کم سن لڑکیاں چالیس یا اس سے بھی زیادہ عمر کے مردوں سے بیاہ دی جاتی ہیں۔جبکہ بچی کی عمرقانون کے مطابق16سال ہونا ضروری ہے۔بعض اوقات بچی کی عمر سولہ سال سے کم ہونے کی صورت میں شرعی نکاح پڑھا کر کام کیا جاتا ہے اورعمر پوری ہونے پر نکاح اندراج کرا لیا جاتا ہے۔دوسری جانب والدین کی مرضی یا پنچائیت کے فیصلے پر کی گئی شادیاں بچوں کی پوری زندگی بر باد کر دیتی ہیں۔
وجوہات
بعض خاندان آپس میں یہ طے کر لیتے ہیں کہ وہ اپنی زمینیں اپنی بیٹیوں کی بجائے اپنے بیٹوں کے نام کرائیں گے پاکستان میں اس طرح کی 75 فیصد شادیاں خون کے رشتوں پر مبنی ہوتی ہیں جبکہ 90 فیصد وٹہ سٹہ کی شادیاں ایک ہی گاؤں یا قبیلے (ذات، برادری) میں ہوتی ہیں۔
اس رسم کی ایک بڑی وجہ آج بھی معاشرے میں عورت کو جائیداد کی طرح سمجھا جانا ہے۔
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین وٹے سٹے کی شادی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کی وجہ غربت، عدم تحفظ، شعور کی کمی اور روایات ہوتی ہیں۔
کچھ لوگ وٹہ سٹہ کی شادیوں کو کامیاب اور دیرپا سمجھتے ہیں تاکہ باہمی شادیوں کے تحت دونوں خاندان اس مضبوط باہمی تعلق کے ساتھ بہت سی قباحتوں سے بچ سکیں۔
بعض گھرانوں میں معاشی حالات کی وجہ سے بھی وٹہ سٹہ کی شادیاں ہوتی ہیں تاکہ دونوں خاندان اپنی مالی مشکلات سے بچ سکیں جو کہ ہمارے معاشرے میں جہیز، بری اور شادی کے فضول اور بے جا اخراجات پر مبنی ہیں۔جن علاقوں میں بیٹی کی قیمت لینے کارواج موجود ہے ۔وہاں پر وہ لوگ جو لڑکی کی قیمت ادا نہیں کر سکتے تو وہ بدلے میں اپنے خاندان کی لڑکی کا رشتہ دوسرے خاندان کو پیش کر دیتے ہیں۔
وٹہ سٹہ کے رواج کے پس پردہ ماحول کے مطابق عموماًکم تنخواہ اور غیریقینی آمدنی والے کمزورخاندان کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ یہ غریبوں کے بیچ ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے کہ وہ ازدواجی دراڑ، طلاق اور گھریلو جھگڑوں سے بچ سکیں۔
مختصراًوٹہ سٹہ فائدے کے بجائے ازواجی زندگی میں ایک لٹکتی تلوار بن جاتی ہے۔ونی، قرآن سے شادی، عزت کے نام پر قتل اور کم عمری میں بیاہ کے ساتھ ساتھ بدلے کی شادی یا وٹہ سٹہ کو معاشرتی و سماجی لحاظ سے غلط سمجھا جا نا چاہیے بلکہ اس پر پابندی عائد ہونی چاہیے اور اسلام اس کی واضح حمایت کرتا ہے۔اسلام کا نقطہ نظر قانون نکاح و طلاق میں بھی بالکل واضح اور صاف ہے۔ اسلام میں شادی کا مقصد یہ ہے کہ مردوعورت محبت، رحم وہمدردی، یکسانیت و ہم آہنگی، باہمی تعاون، آپس کی شفقت ومہربانی اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کے ساتھ زندگی گزاریں ۔اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ جب اس کام میں فریقین کی سوفیصد رضا مندی اور محبت شامل ہو ۔جب اسلام میں جبر نہیں ہے تو شادی میں جبر کیسےہوسکتا ہے؟اسلام نے عورت کوبہت سے حقوق دئیے ہیں اس میں پہلی چیز شریک حیات کے انتخاب میں اس کی پسند اور معیار کا خیال رکھنا اور نکاح کے وقت سوفیصد اس کی رضا مندی ہونا ضروری ہے تاکہ شادی کے بعد کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو سکے۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں معاش، تعلیم اور عورتوں کے حقوق سے متعلق آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں انسانی وقانونی حقوق کے بارے میں شعور پیدا کرنے کے لئے حکومت ،سماجی اداروں اور میڈیا کواپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہو گا۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔