عام طور پر اسلام میں میاں اور بیوی کے حقوق کے بارے میں بہت غلط فہمی پائی جاتی ہے۔عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کو مرد کے مقابلے میں کم حقوق حاصل ہیں جبکہ اصل میں ایسا نہیں ہے اسلام میں مرد اور عورت دونوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ اس بلاگ پوسٹ میں ہم قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں ان نظریات کو رد کرنے کی کوشش کریں گے جن میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمیوں کو اسلام میں زیادہ حقوق حاصل ہیں۔لہذا تیار ہو جائیں اسلام کی تعلیمات کے بارے میں جاننے کے لیے جو شادی جیسے مقدس رشتے میں آدمی اور عورت کے برابر حقوق کی بات کرتی ہیں۔
ازواجی حقوق کے بارے میں اسلام کی تعلیمات
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ اسلام ازواجی تعلقات میں عورت پر مرد کو ترجیح دیتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اسلام میں جب مرد اور عورت شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں تودونوں برابر کے حقوق اور فرائض رکھتے ہیں۔شادی کو کامیاب بنانے میں دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے اور دونوں کی اس رشتے کے لیے کوشش برابر اور بھرپور ہوتی ہے۔
میاں بیوی کا رشتہ کسی بھی دوست یا رشتے دار سے بڑھ کر ہوتا ہے۔میاں بیوی دونوں کو ایک جان ہو کر اس رشتے کو بنھانا ہوتا ہے۔
فرمایا گیا کہ”اس نے تم میں سے تمھاری بیویاں پیدا کیں“یہ آیت میاں بیوی کے رشتے کی گہرائی کے بارے میں بتاتی ہے۔اسی طرح ایک اور آیت ہے جو میاں بیوی کے رشتے کی اہمیت بتاتی ہے۔
وہ تمھارا اور تم ان کا لباس ہو
انسانی زندگیوں میں لباس کا بہت اہم کردار ہے۔یہ ہمیں بہت سی پریشانیوں سے بچاتا ہے،ہمارے عیب چھپاتا ہے اور ہماری خوبصورتی کو بڑھاتا ہے اور جب میاں بیوی کے رشتے میں لباس کی مثال دی جاتی ہے تو اس رشتے کی اہمیت کا معلوم ہوتا ہے۔جب اسلام یہ کہتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے لباس کی طرح ہیں تو وہ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ دونوں کی ایک دوسرے کے لیے کس قدر اہمیت ہے۔
حقوق اور فرائض کی برابری
میاں اور بیوی دونوں برابر کے حقوق اور فرائض رکھتے ہیں۔
سلوک کی برابری
میاں اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا
میاں اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔بیویوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہروںاسلام میں کے لیے بناؤ سنگھار کریں اور خوشبو استعمال کریں اور اسی طرح آدمی کو کہا گیا کہ وہ اپنی صفائی اور کپڑوں کا خیال رکھیں تاکہ ان کی بیویاں ان کو دیکھ کر خوش ہوں۔
خوشی اور اطمینان
شادی کا مقصد صرف جسمانی خواہشات کی تکمیل نہیں ہوتا لیکن ا س رشتے میں دونوں افراد سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں اور اس طرح ایک صحت مند رشتے کی بنیاد رکھیں اور ایک دوسرے کی خوشی کا باعث بنیں۔اس امر میں بھی کوئی صنفی امتیازروا نہیں رکھا گیا بلکہ میاں اور بیوی دونوں کو برابر کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
بچوں کی تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری
میاں بیوی دونوں کے لیے بچے ایک برابر کی ذمہ داری ہیں۔میاں اور بیوی دونوں پر فرض ہے کہ وہ بچوں کی جسمانی اور جذباتی ضروریات کا خیال رکھیں اور اسی طرح ان کی تعلیم اور تربیت پر بھی پوری توجہ دیں۔ماں باپ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مل کر بچوں کی فلاح کے بارے میں سوچیں اور اس کے لیے کوشش کریں۔میاں اور بیوی دونوں کو اپنے اپنے دائرہ عمل میں بچوں کے لیے بھر پور کوشش کرنا پڑتی ہے۔
شوہر کے فرائض
شادی کے بندھن میں شوہر کے فرائض بیوی سے کسی قدر کم نہیں ہوتے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کچھ زیادہ ہوتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔مندرجہ ذیل فرائض ہر شوہر کو ادا کرنے ہوتے ہیں۔
خاندان کی دیکھ بھال
مالی مدد کرنا
عزت،اخلاق اور صبر سے بھر پور کردار ادا کرنا
خاندان کے سربراہ کا کردار ادا کرنا
علیحدہ رہائش کا انتظام(اگرمالی لحاظ سے قابل ہے)
اس کے علاوہ کچھ اور ذمہ داریاں بھی شوہر پر عائد ہوتی ہیں۔
بیوی کو جسمانی اور ذہنی ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ رکھنا آدمی کی ذمہ داری ہے۔بد قسمتی سے کچھ شوہراس طاقت کا غلط استعمال کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں شوہر ہونے کے ناطے عطا کی ہے بلکہ ان کے گھر والے بھی ان کی بیویوں کو ستانے میں بھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔
ایک اچھے شوہر کو اپنی بیوی کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی اچھی باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔
آدمی کو حکم ہے کہ وہ عورت کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے درگزر کرے۔اللہ کے پیغمبرﷺ نے فرمایا:ایک مومن شخص ایک مومن عورت سے
حقارت والا رویہ نہیں رکھتا۔اگر اسے اپنی بیوی میں کچھ نا پسند ہے تو ہم اسے کسی اور بات سے خوش کر دیں گے‘۔
(صحیح مسلم (14 69
عورت کو اس کے نا محرم رشتے داروں کی خدمت کے لیے مجبور کرنا جو کہ قانوناً اور مذہباً جائز نہیں ہے۔
دوسری عورتوں سے اپنی بیوی کا مقابلہ کرنا اور دوسری عورتوں کی اس کے سامنے تعریف کرنا۔
عورت اور آدمی ایک دوسرے کا لباس ہیں اس لیے مردوں کو چاہیے کہ اپنی بیوی کی دوسروں کے سامنے بُرائی نہ کریں اسی طرح اس کی کمزوریاں اور راز بھی دوسروں کے سامنے نہ لائیں۔
آدمی کا فرض ہے کہ ماں بننے کے عمل کے دوران جو بھی مشکلات اور تکلیفیں عورت کو برداشت کرنا پڑیں اس میں ان کا پورا ساتھ دیں اور ان کے آرام کا بھی خیال رکھیں۔
شوہر کا فرض ہے کہ وہ بیوی کی بُرائیوں کو دوسروں کے سامنے مت لائے کیونکہ اس طرح بیوی کو تکلیف ہو گی اور ان کے رشتے میں دراڑ آئے گی۔
اپنے بچوں کو با آدب اور خیال کرنے والا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان کے سامنے اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کریں تاکہ وہ بھی اس بات کو سیکھیں اور اپنی ماں کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آئیں۔
بے شک بیوی اپنے شوہر پر زیادہ حق رکھتی ہے لیکن بہت سی احادیث بتاتی ہیں کہ شوہروں کی طرح بیویوں کی بھی بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔اور سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کا خیال رکھے۔
بیوی کے فرائض
شوہر کی تابعدار رہنا
محبت کے معاملات میں شوہر کی خوشی کا خیال رکھنا سوائے ان معاملات مین جو قانوناً اور مذہباًٍ منع ہیں۔
اپنے شوہر کے گھر اور اس سے متعلق اشیاء کی حفاظت کرنا۔
اپنے کردار اور پاکبازی کا خیال رکھنا۔
گھر سے نکلنے سے پہلے شوہر کی اجازت طلب کرنا۔
یہ جاننا بہت اہم ہے کہ اسلا م میاں اور بیوی دونوں کے درمیان باہمی محبت،عزت اور ہم آہنگی پر زور دیتا ہے۔پیار اور محبت کی بنیاد پر قائم رشتہ مضبوط رہتا ہے اور مشکل وقت میں ایک ڈھال کا کام کرتا ہے۔
اس آرٹیکل میں ہم نے جاننے کی کوشش کی کہ کس طرح مسلمان میاں اور بیوی اپنی ذمہ داریاں اور فرائض ادا کر کے اپنے رشتے میں توازن پیدا کر سکتے ہیں۔میاں اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رشتے میں بات چیت،ہم آہنگی،عزت اور باہمی اعتبار کی اہمیت کو سمجھیں اور اسی طرح دونوں اپنے رشتے میں برابر کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہمارا مذہب ہمیں ہر وہ معاملہ جو ہماری خاندانی زندگی سے متعلق ہے رہنمائی فراہم کرتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ رشتے کو قائم رکھنے میں میاں اور بیوی دونوں کا کردار اہم ہے۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔