پاکستان میں ذہنی صحت ایک ایسا موضوع ہے جس کو شرم اور رازداری کے جذبات کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ہمارے کلچر میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی دینے کے بجائے اس کو ایک بُرائی سمجھا جاتا ہے۔اس بلاگ میں ہم ذہنی صحت اور صنفی فرق کے بارے میں جانیں گے اور مزید یہ کہ پاکستان میں یہ کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ہم ان مشکلات پر ایک نظر ڈالیں گے جو ذہنی مسائل سے دو چار افراد کو برداشت کرنا پڑتی ہیں اور ساتھ میں ہی ان کا حل بھی جاننے کی کوشش کریں گے۔
:آدمیوں میں بڑھتے ذہنی مسائل
سب سے پہلے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ ذہنی صحت کے مسائل دنیا بھر میں ہر قسم اور صنف کے لوگوں میں عام ہیں تا ہم تحقیق بتاتی ہے کہ عورتوں کی نسبت آدمی زیادہ ذہنی مسائل اور منشیات کے عادی ہیں۔
دنیا کی تیرہ فیصد آبادی ذہنی مسائل کا شکار ہے۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ آٹھ میں سے ایک آدمی ڈپریشن اور بے چینی کا شکار ہے“۔”
صنفی بنیاد پر موجود اس فرق کے پس پردہ کئی اور کثیر الجہتی وجو ہات ہیں۔بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ روائتی صنفی کردار سے متعلق توقعات آدمی کے لیے ذہنی مسائل کو ماننا مشکل بنا دیتا ہے اور یہ ہی معاشرتی تو قعات آدمی کو تنہا کر دیتی ہیں اور وہ مدد حاصل کرنے کو باعث شرم خیال کرتا ہے۔کچھ تحقیقات بتا تی ہیں کہ حیاتیاتی عناصر بھی عورتوں کی نسبت آدمیوں میں زیادہ ذہنی مسائل کی وجہ ہیں۔مثال کے طور پر ٹیسٹیرون ہارمون کو ہیجانی کیفیت اور خطرہ مول لینے کے رویے سے جوڑا جاتا ہے جو کہ بائی پولر جیسے مسئلے کو بڑھاتا ہے۔ان مشکلات کے باوجود ذہنی صحت کے بارے میں معاشرتی رویہ بدلنے کی امید کی جاتی ہے۔اپنے قریبی رشتے دار یا ماہر نفسیات سے مدد لینے کی صورت میں ذہنی مسائل کی علامات کو وقت کے ساتھ کم کیا جا سکتا ہے۔
:وہ عجیب مشکلات جن کا سامنا پاکستانی مرد کو کرنا پڑتا ہے
پاکستانی معاشرے میں ذہنی صحت ایک حساس موضوع ہے اور ان سب حالات سے لڑنے پر مرد عجیب و غریب مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔سب سے پہلے ذہنی صحت کے مسئلے کو ایک بُرائی سمجھ لیا جاتا ہے اس لیے آدمی اس کے بارے میں مدد لینے میں ہچکچاتے ہیں۔آدمیوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کریں اور اگر وہ اپنے مسائل کا ذکر کریں گے تو اس کو شرم والی بات سمجھی جائے گی۔
دوسری بات یہ کہ معاشرتی روایات آدمیوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ کھل کر اپنے مسائل کا ذکر نہ کریں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ مدد لینا بھی چاہیں تو انھیں اپنے جذبات کے اظہار میں مشکل پیش آتی ہے۔یہ حالات انھیں اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد سے مدد لینے سے روکتے ہیں جس کے نتیجے میں باقی لوگ ان کے مسائل کی پیچیدگی کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ ذہنی مسائل کے حل کے لیے اگر آدمی مدد بھی لینا چاہے تو پاکستان میں اور بھی بہت سے مسائل ہیں جو انھیں روکتے ہیں جیسے مالی مسائل یا صحت کی سہولیات پہنچ سے دور ہونا جس طرح دیہاتوں میں ہر کسی کو صحت کے مراکز کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔
آخری لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر پاکستانی مرد پر معاشرتی دباؤ ہوتا ہے کہ وہ گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیسے کمائیں لیکن جب یہ ہی مرد ڈپریشن اور بے چینی کا سامنا کرتے ہیں تو ان کے لیے مسائل بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
یہ تمام مسائل ہمیں باور کرواتے ہیں کہ پاکستانی مردوں میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی دینا کتنا ضروری ہے اور اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ حالات کو ساز گار بنانا بہت ضروری ہے جن میں آدمی اپنے مسائل کو بیان کر سکیں اور ان کے حل کے لیے کوشش کی جا سکے۔
ان مسائل سے نبرد آزما کیسے ہوا جائے؟
ان سب مسائل سے نبرد آزما ہونا مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے۔سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان مسائل کی موجودگی کو مانا جائے اور اس کے لیے مدد حاصل کی جائے۔مدد حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے افراد جن پر اعتبار ہو ان سے بات کی جائے۔مدد حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے افراد جن پر اعتبار ہو ان سے بات کی جائے اور کسی ماہر نفسیات سے ماہرانہ مدد لی جائے۔یہ ماننا بہت اہم ہے کہ ذہنی مسائل سے متعلق مدد لینے میں کوئی شرم کی بات نہیں۔یہ مسائل عام ہیں اور کسی بھی شخص کو اس کی صنف،عمر،معاشرتی مقام کودیکھے بغیر اسے متاثر کر سکتے ہیں۔مدد لینا کمزور ظاہر نہیں کرواتابلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کتنے مضبوط ہیں۔
دوسرا طریقہ کار اس مسئلے پر قابو پانے کا یہ ہے کہ تعلیم اور آگاہی کے ذریعے اس پر قابو پایا جائے۔پاکستان میں بہت سے لوگ ذہنی صحت کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔تعلیم کے ذریعے ان غلط فہمیوں کو دور کرکے آگاہی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔اپنا خیال رکھا جائے،ورزش،کھانے پینے کی بہتر عادات،مراقبہ اور سانس کی ورزشیں کسی بھی انسان کو صحت مند رہنے میں مدد دیتی ہیں۔
وہ شخص جو ذہنی مسائل کا شکار ہے اگر اس کو مدد گار ماحول فراہم کیا جائے تو وہ اپنے مسائل سے جلدی نکل آتا ہے۔خاندان کے افرادیا دوست جو کسی فرد کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا جو خود ان مسائل سے گزر چکے ہوں وہ مشکل حالات میں ایسے افراد کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں
ذہنی صحت کے مسائل کسی بھی فرق کے بغیر ہر کسی کو متاثر کر سکتے ہیں لیکن جب پاکستانی مردوں کی بات کی جائے تو ان کے لیے یہ انو کھی بات تصور کی جاتی ہے اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔کسی بھی صنفی امتیاز،روائتی سوچ کوبالا طاق رکھتے ہوئے اس ذہنیت کو بدلنا پڑے گا اور یہ بھی کوشش کی جائے کہ علاج کی صورت میں طبی سہولیات سب کو اور ہر جگہ میسر ہوں اسی طرح ہم اس مسئلے سے نبٹ سکتے ہیں۔معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جن میں مرد اپنے جذبات،سوچ اور مسائل کا کسی بھی صنفی امتیاز کو ذہن میں رکھے بغیر کھل کر اظہار کر سکیں۔کسی بھی مسئلے کی صورت میں طبی امداد حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کوشش کی جائے کے ذہنی صحت کے زیادہ سے زیادہ مراکز ہوں جوہر کسی کی پہنچ میں ہوں۔امید کرتی ہوں کہ اس تحریر نے آپ کے مسئلے میں کافی مدد کی ہو گی۔کچھ اقدامات کر کے ہم صنفی امتیاز کے بغیر ہر کسی کے مستقبل کو صحت مند اور محفوظ بنا سکتے ہیں۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔