دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی قریبی رشتے داروں میں شادی کا رواج عام ہے۔پاکستان میں یہ رواج اتنا انتہا کو پہنچا ہوا ہے کہ بعض خاندانوں میں جوان لڑکے لڑ کیوں کی شادی صرف اس وجہ سے نہیں ہو پاتیں کہ ان کے خاندان میں ان کے لیے کوئی مناسب رشتہ نہ مل سکااور خاندان سے باہر ان کی شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ایسے خاندانوں میں خاندانی دولت اور جائیداد کو خاندان سے باہر نہیں جانے دیا جاتا اور اسی وجہ سے رشتے صرف خاندان میں طے کیے جاتے ہیں۔ایسے خاندانوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اگر خاندان میں شادیاں کی جائیں گی تو خاندان مزید مضبوط ہو گا جبکہ حالات اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور شادی کے بعد جھگڑوں کی وجہ سے خاندان میں شدید اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں جن کا نتیجہ علیحدگی اور طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔
ان سب مسائل کے باوجود پاکستان میں ہو نے والی 73فیصد شادیاں کزن میرج کے تحت ہی ہوتی ہیں۔2017-2018کے درمیان ہونے والے سروے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ کزن میرج کے بندھن میں بندھنے والی خواتین میں 29فیصدکی اپنے والد کے خاندان میں جبکہ 21فیصدکی اپنی والدہ کے خاندان میں شادی میں شادی ہوتی ہے۔کزن میرج کے اس غیر صحت مندانہ رجحان کو بڑھانے میں ٹی وی ڈراموں نے بھی اہم کردار ادا کیااور ”ہم سفر“ اور ”سنو چندا“ جیسے ڈراموں نے اس رجحان کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
کزن میرج کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں میں ذہنی اور جسمانی مسائل پائے جاتے ہیں جن کا علاج بھی بعض اوقات نہ ممکن ہوتا ہے۔ایک وقت تھا کہ ان بیماریوں پر 5ڈالر خرچ ہوتے تھے جبکہ آجکل 5ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں اور آنے والے دنوں میں نظر آرہا ہے کہ یہ ہی خرچا 15ہزار ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں 56فیصد شادیاں فرسٹ کزن میرج ہوتی تھیں لیکن جب اس کے نقصانات کا احساس ہوا تو اس کے خلاف پورے ملک میں مہم شروع ہو گئی اور لوگوں کو کزن میرج کے نقصانات سے بچانے کے لیے مذہبی رہنماؤں نے بھی اہم کردار ادا کیا اور ان لوگوں کو دعا دینے سے انکار کیا جو کزن میرج کی حمایت کرتے تھے۔اسی طرح مصر اور سعودی عرب نے بھی تعلیم اور آگاہی کے ذریعے لوگوں کو اس رجحان کے نقصانات سے آگاہ کیا۔پاکستان میں بھی اسی طرح کی مہم شروع کی جانی چا ہیے تاکہ لوگ کزن میرج کے نقصانات کو جان کر اس کے نقصانات کو سمجھ سکیں،اسی طرح ہماری نسلیں لا علاج اور خطرناک بیماریوں سے بچ سکیں گی۔
عمّارہ خان ایم فل ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں اور تقریباْ بارہ سال سے لکھنے کے کام سے منسلک ہیں۔“دل کا رشتہ“ایپ پر بھی خاندان اور شادی سے جڑے موضوعات پر لکھتی ہیں۔